اجڑے کو بھی گلشن بنا رکھا ہے
یادوں سے تیری گھر سجا رکھا ہے

ہم سے تو اب
نایاب ہیں عالم میں
دشمن کو بھی شامل دعا رکھا ہے

رستا نہ
بھولے اب شہر میں کوئی
اس ڈر سے دل اپنا جلا رکھا ہے

تیری ہی آمد کے سبب
برسوں سے
در دل کا ہم نے پھر کھلا رکھا ہے

بولے گا اس کو بے وفا جگ
کیسے؟
جب نام ِ
جاناں ہی وفا رکھا ہے

تیری وفا کی یاد میں رہتے ہیں
آسیب کو بھی اپنا بنا رکھا ہے

مشکل مرے در سے پلٹ جاتی ہے
ماں کی وفا نے گھر بچا رکھا ہے

س ن
مخمور
امر
تنہائی